حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت

  • Admin
  • Feb 02, 2022

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت


  الحمد لله الذي اسعد واشقی، فخصص بعض عباده بالحسنى ، والصلوة والسلام على محمد المصطفى سـيـدالـورى و شـمـس الهـدى وعـلـى الـه واصحابه المخصوصين بالعلم والتقى.

 اما بعد!

صحابی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہے جس کو حضور پُر نور، شافع یوم النشور سیدالمرسلین ﷺ کے چہرہ والضحٰی، رُخ زیبا اور جلوۂ جانفزا کی زیارت نصیب ہو، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی قربت، معیت ، رفاقت اور آپ کے ساتھ شرف ملاقات کی سعادت میسر آئی ہو۔ یہی ایک وجہ صحابی کے لیے وجہ افضلیت و اکملیت ہے۔ کیونکہ صحابی کی شخصیت  ہر پہلو سے تابناک اور کامل ہے۔ وہ خاشع نمازی، قائم الليل، صائم النہار، عالم بالقرآن والسنہ اور مجاہد فی سبیل اللہ بھی ہے لیکن اس کو مرتبہ صحابیت صرف اعمال صالحہ، تقوی ٰو پرہیزگاری، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کے ساتھ میسر نہیں آیا۔ اس لیے کہ یہ تمام کام آج تک کیے جاتے ہیں۔ 

لوگ نماز پڑھتے ہیں تو نمازی بن جاتے ہیں لیکن صحابی نہیں بنتے۔ حج کرتے ہیں تو حاجی بن جاتے ہیں لیکن صحابی نہیں بنتے ۔ ذکر کرتے ہیں تو ذاکر بن جاتے ہیں لیکن صحابی نہیں بنتے۔ معلوم ہوا کہ مرتبہ صحابیت صرف اور صرف دیدار ِمصطفی ، محبت مصطفی اور لقائےمصطفی ﷺ سے میسر آ تا ہے۔

چنانچہ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی مسلمان ہوا اور نبی کریم ﷺ کی صحبت سے مشرف ہونے کے کچھ دیر بعد اس کا انتقال ہو گیا اور حدیث کے الفاظ ہیں: 

فمات فدخل الجنة وما صلى الله صلوة

(سنن ابوداؤد کتاب الجهاد باب فيمن يسلم رقم الحديث 2537 مطبوعه دارالسلام ریاض)

 ترجمہ: پس وہ مر گیا تو جنت میں داخل ہو گیا اور ابھی تک اس نے اللہ رب العزت کی رضا کے لیے ایک نماز تک بھی نہیں پڑھی۔

  حدیث میں تصریح ہے کہ اس صحابی نے ایک نماز تک نہیں پڑھی، اسے وضوء ،غسل، طہارت اور احکام شرعیہ کا بھی علم نہیں ،لیکن اہل سنت کے اتفاق و اجماع سے اس صحابی کا مقام اور مرتبہ اتنا بلند ہے کہ قیامت تک عابدین، زاہدین، مجتہدین، غوث، قطب، ابدال، اولیاء، نجباء اور نقباء مل کر بھی اس کے مقام کی برابری نہیں کر سکتے ۔ 

چنانچہ حدیث پاک میں ہے: ۔ 

عـن ابـي هـريـره رضى الله عنه قال قال رسول الله صـلـى الـلـه عـليـه وسلم "لا تسبوا اصحابى لا تسبوا اصحابی فوالذي نفسي بيده لو ان احدکم انفق مثل احد ذهبا ما ادرک مذا حدهم ولا نصيفه۔

 صحیح مسلم : كتـاب فـضـائـل الصحابة، باب تحريم نسب الصحابة، رقم الحديث: 6488

ترجمہ:

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔

غور فرمائیں کہ کہاں احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنا اور کہاں ایک سیر یا آدھا سیر جَو خرچ کرنا۔ حضور اقدس ﷺ نے واشگاف الفاظ میں صحابی کے اس قلیل عمل میں بھی مثلیت اور برابری کی نفی فرما دی۔ سو جب صحابی کے ایک عمل کی برابری  امت نہیں کر سکتی تو اس کی ذات کی برابری کس طرح متوہم ہوسکتی ہے۔

 یہی بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:

  كـان بن عمر رضی الله عنه يقول لا تسبوا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فلمقام احدهم ساعة خير من عمل احدهم عمر

   (سنن ابی ماجه: باب فضل اهل بيت. رقم الحديث:162 دارالسلام ریاض ، مصنف ابن ابی شيبه : ج6 ص405، رقم الحديث:32415) 

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ کو برا مت کہو کیونکہ ان کے عمل کا ایک لمحہ تمہاری زندگی کے تمام اعمال سے بہتر ہے۔

معلوم ہوا کہ جمیع امت اپنی جملہ طاعات و عبادات، علم و معرفت اور زہد و تقوی کے ساتھ صحابہ کرام کے مقام و مرتبہ اور منزلت و وجاہت کی برابری نہیں کر سکتی اور اس افضلیت، اکرام و اعزاز اور توقیر و تکریم کی وجہ اور سبب صرف اور صرف محبت ِمصطفی اور دیدارِ مصطفی ﷺ ہے۔

 چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرام کے دوزخ سے نجات کی علت ہی اپنے دیدار کو قرار دیا۔ 

عـن جـابـر رضـى الـلـه عـنه عن النبی ﷺ قال: لا تمس النار مسلما رآنی اور آی من رانی۔

 جـامـع تـرمـذی: كتـاب الـمـنـاقـب عـن رسـول اللہ ﷺ، باب ما جاء في فضل من رایالنبی ﷺ، رقم الحديث:3858 دارالمعرفة بيروت)

 

 ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 اُس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئےگی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا۔

 اس تمہید کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ سمجھ لیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درجات اور مراتب یکساں نہیں ،اُن کے درجات میں بھی تفاوت اور فرق ہے، اس لیے کہ جس صحابی کو ایک لمحہ حضور اقدس ﷺ کی صحبت میسر رہی اس کا مقام بھلا اس صحابی کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کو تمام عمر رُخِ تاباں کی ضیا پاشیاں اور چہرہ انور کی رعنائی و زیبائی کا مشاہدہ کرنا نصیب ہوا۔ سو جس کی صحبت، معیت اور رفاقت جتنی بڑھتی چلی گئی اور اس کا مقام و مرتبہ اس قدر فزوں تر ہوتا گیا اور آپ جمیع صحابہ کے احوال زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ بعض صحابہ کو حضور اقدس ﷺ کی مکی زندگی میں تو صحبت میسر رہی، لیکن مدنی زندگی میں صحبت میسر نہ آئی۔ جیسے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا۔ بعض کو مدنی دور کی رفاقت نصیب ہوئی تو مکی دور میں شرف صحبت میسر نہ آیا۔ جس طرح وہ کثیر التعداد صحابہ جو مدنی دور میں بالخصوص فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام، حضرت ابو ہریرہ، حضرت خالد بن ولید، حضرت عکرمہ، حضرت کعب بن زہیر حضرت عدی بن حاتم اور حضرت امیر معاویہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ،کہ یہ سب حضور اقدس ﷺ کی مدنی زندگی میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ 

اس طرح بعض وہ ہیں جن کو حضور اقدس ﷺ کی بعد از بعثت صحبت و معیت نصیب ہوئی لیکن قبل از بعثت رفاقت نصیب نہ ہوئی ، مثلاً حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال میں مسلمان ہوئے۔

 پھر بعض وہ ہیں جن کو حضور اقدس ا ﷺ کی حیات ظاہری میں معیت و قربت نصیب ہوئی لیکن آج قبر انور میں ظاہراً قربت نہیں ، مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، کہ آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک نجف اشرف میں ہے، سو تمام صحابہ کی رفاقت اور معیت کی ایک حد اور دائرہ کار ہے ۔ 

لیکن حضور اقدس ﷺ کے ایک صحابی یعنی تاجدار صداقت، پیکر صدق و وفا، مجسمہ خلوص و ایثار، امیر المومنین، خلیفہ بلافصل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ایسی ہے کہ آپ عالمِ ارواح سے لے کر عالمِ آخرت تک تقریبا ہر مرحلے میں حضور اقدس ﷺ کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

 حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو عالم ِارواح، قبل از بعثت، سفر شام، بعد از بعثت، مکی زندگی ، مدنی زندگی ، سفر ہجرت، غار ثور، غزوة بدر، غزوہ احد، غزوہ حنین ،غزوہ تبوک ، صلح حدیبیہ، فتح مکہ،حجۃ الوداع ، قبر انور، عالم برزخ، وقت حشر ، حوض کوثر، بلکہ جنت کی دائمی اور ابدی زندگی میں حضور اقدس ﷺ کی رفاقت میسر ہے۔ سو اگر کسی انسان کو فقط ایک لمحہ کے لیے حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میسر آ جائےتو اُس کا مقام نہ صرف اِس امت کے جمیع اولیاء سے بلند و برتر ہو جاتا ہے بلکہ تمام امم ماضیہ پر اسے افضلیت نصیب ہو جاتی ہے، اور جب ایک لمحہ کی صحبت کا یہ فیض اور یہ اثر ہے تو سوچیے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کے ساتھ کس کی برابری ہوسکتی ہے کہ جن کو عالمِ ارواح سے عالمِ آخرت تک تقریبا ہر مرحلہ میں رفاقتِ مصطفی کریم ﷺ کا شرف حاصل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام  نےبر ملا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا اعلان فرمایا اور کوئی اس پر نکیر و اعتراض کرنے والا نہ ہوتا۔

1۔ قال سالم بن عبداللہ، ان ابن عمر قال :کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حی،افضل امۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدہ ابوبکر،ثم عمر،ثم عثمان رضوان اللہ علیھم اجمعین۔

(سنن ابی داؤد، کتاب السنة، باب في التفضيل، رقم الحديث: 4282، دارالسلام ریاض... صـحـيـح بـخـاری: کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب فضل ابی بکر بعد النبی ﷺرقم الحدیث:3655-3698، دارالکتاب العربی، بیروت) 

ترجمہ:

 حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: 

ہم حضور اقدس ﷺ کی (ظاہری) حیات طیبہ میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے بعد آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی امت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر (ان کے بعد ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔

2۔ 

عـن مـحمد بن الحنفية قال: قلت لابی: ای الناس • خيـر بـعـد رسـول اللہ ﷺ قال: ابوبکر، قلت : ثم من؟ قال: ثم عمر رضوان الله تعالى عليهم اجمعين. 

(صحیح بخاری: کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، رقم الحديث: 3671، دار الكتاب العربي

 ترجمہ: حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد ( حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم) سے دریافت کیا: حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ، پھر میں نے پوچھاان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ ۔

عن عبدالله بن سلمة قال: سمعت عليا يقول: خير الـنـاس بعد رسول اللہ ﷺ ابوبکر و خير الناس بعد ابی على الله بکر، عمر  سنن ابی ماجه : مقدمة، رقم الحديث: 106، دارالسلام ريـاض..... فضائل الصحابة : رقم الـحـديـث: 36..

ترجمہ: 

عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: 

آپ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ بمطابق کشف المحجوب:

  حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

" حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ شیخ الاسلام ، اہل تجرید کے امام خلیفہ۔ ارباب ِتفرید کے شہنشاہ، جُود وسخا میں فقید المثال، کشف و مشاہدہ میں سب سے مقدم ، اسبابِ غنا کے باوجود غفلت اور معصیت (گناہ) سے پاک۔ اس صفت میں حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  بعد انبیاء کرام  علیہم السلام سب سے مقدم ،ابتداء انتہا میں ہمیشہ تسلیم و رضا کو اختیار کرنے والے ۔ توحید وسنت میں محو''۔   آپ کی طریقت ِاکبر آپ سے سلسلہ نقشبندیہ کی ابتداء ۔ اس لئے  یہ بھی اکبر ۔ 

( خواجہ صدیق احمد سید وی قدس سره ) 

جناب مفتی احمد یار خان گجراتی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

 

 سورة نور میں ان کا ڈیرہ

اور واللیل پر اُن کا قبضہ

 

  سورہ توبہ میں ان کا جلوہ

رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

 سوره سجدہ میں تذکرے اُن کے

سورۃ فتح میں اُن کر چرچے

 

 ان کا ثنا خوان خود رب تعالیٰ

رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

 شان ان کی حجرات سے پوچھو

بلکہ شہہِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو

 

 بعد نبی مخلوق سے اعلیٰ

رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

 

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعا:

صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جو میں نماز میں پڑھا کروں ۔

 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابوبکر تم یہ دعا پڑھا کرو۔

  اللهم إني ظلمت نفسي ظلمًا كثيرا ولا يثير الثوب إلا أنت فاغفرني منيرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم 

 اے اللہ ! میں نے اپنے اوپر بڑی زیادتی کی اور تیرے علاوہ کوئی قصور معاف نہیں کر سکتا نہیں مجھے اپنے فضل سے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرمابے شک تو ہی  بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

 حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کے حسب الارشاددعایاد کر لی اور اس دعا کوا پنی ہرنماز کے بعد کا وظیفہ بنالیا۔ 

ترمدی میں حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ مجھے کوئی دعا سکھائیں؟

 حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ وہ صبح شام کے وقت یہ دعا مانگا کریں: 

اے زمین و آسمان کے خالق اور غائب و ظاہر کو جاننے والے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تو ہر چیز کا پروردگاراور مالک ہے میں اپنے نفس اور شیطان کے شراورابلیس کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ اپنے نفس کے لئے یا اپنے کسی مسلم بھائی کے لئے شر کا کوئی کام کروں ۔ 

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے اپنی مناجات میں اللہ عزوجل کے حضور یوں عرض کرتے:

  '' اے اللہ! دنیا کو میرے لئے کشادہ فرمادے لیکن مجھے اس میں مبتلا ہونے سے محفوظ فرما''۔    حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی اس دعا میں ایک لطیف اشارہ یہ موجود ہے کہ اللہ عز وجل دنیا عطا فرمائیں اور وہ دنیا کو اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کر دیں تا کہ شکر اورانفاق فی سبیل اللہ کا ثواب پائیں اور مقامِ صبر حاصل کر یں۔

 

مزید مطالعہ کےلیے درجذیل لنک کھولیں:

https://www.myislamicinfo.in/2021/02/blog-post_94.html

https://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2022-01-27/38310/44503929

https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Seerat-Abu-Bakar-Siddique/#105-44

https://todayscolumn.com/column/5019

https://www.minhaj.org/urdu/tid/36786